Futuhat al-Makkiyya Vol [1-2]
Author: Shaykh al-Akbar Muhyiddin Ibn al-Arabi
Translated by: Abrar Ahmed Shahi
Paper: Imported Ik 70gsm
Urdu Translation only
Pages 525
Edition: June 2024.
Futuhat al-Makkiyya Vol [36-37]
Author: Shaykh al-Akbar Muhyiddin Ibn al-Arabi
Translated by: Abrar Ahmed Shahi
Urdu Translation only
Paper: Imported Ik 70gsm
Pages 420
Edition: June 2023.
Book Description
الفتوحات المکیہ کا شمار شیخ اکبر محی الدین محمد ابن العربی الطائی الحاتمی کی اہم ترین کتابوں میں ہوتا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہیں کہ یہ تصوف کا جامع انسائیکلوپیڈیا ہے اور صوفی معارف کا مصدر اور اساس ہے۔ اس کتاب کے بارے میں شیخ اکبر لکھتے ہیں:
نے اِس کتاب کا نام : “رسالة الفتوحات المكية في معرفة الأسرار المالكية والملكية” ركھا ہے۔ اور اس میں زیادہ تر وہ باتیں ذکر کی ہیں جو اللہ تعالی نے مجھ پر اپنے مکرم گھر کے طواف کے دوران یا حرم شریف میں مراقبے کی حالت میں کھولیں، میں نے اِسے شرف والے ابواب بنایا اور اِس میں لطیف معانی ذکر کیے۔” (السفر –1) فتوحات مکیہ کے باب نمبر 366 میں لکھتے ہیں: میں اپنی تصانیف اور مجالس میں جو کچھ بھی ذکر کرتا ہوں تو وہ حاضرت قرآن اور اس کے خزانوں میں سے ہے۔ مجھے اس میں فہم کی کنجیاں اور اس کی امداد دی گئی ہے۔ باب نمب73 میں فرماتے ہیں: جسے حکمت دی گئی اسے خیر کثیر دے دیا گیا … اللہ کی قسم میں نے اس میں ہر حرف املائے الہی اور القائے ربانی یا وجودی شعور میں روحانی القا سے لکھار 3 ہے، یہ اصل بات ہے۔ اس کتاب میں ہمارا منہج اقتصار اور حتی الامکان اختصار ہے؛ کیونکہ یہ بڑی کتاب ہے اور لازم ہے کہ اس میں طریق الی اللہ کی امہات اور اصول ہوں، جہاں تک ابناء اور فروع کا تعلق ہے تو وہ تعداد سے باہر ہیں۔ (السفر- 9) اگر ہم سلوک کے مراتب اور اسرار بیان کرنے لگ جائیں تو وہ اس کتاب میں ہمیں ہمارے مقصد سے ہٹا دیں گے جو کہ اقتصاد اور اس ضروری علم پر اقتصار ہے جس کی اہل طریقت کو ضرورت ہے … اس کتاب کی طوالت و وسعت ، فصول اور ابواب کی کثرت کے باوجود ہم نے اس میں طریقت کی اپنی خواطر میں سے کسی ایک خاطر کو بھی پوری طرح سے بیان نہیں کیا، کہاں طریقت (کا مکمل بیان)!۔ (السفر – 16)
شیخ اکبر نے سن 599 ھ میں شہر مکہ میں اس کی ابتدا کی، اور ماہ صفر 629ھ میں دمشق میں اسے مکمل کیا، اِس کی تکمیل پر لکھتے ہیں: “یہ میری لکھائی میں اصل ہے، کیونکہ میں اپنی تصانیف کا مسودہ بالکل نہیں بناتا۔” لیکن پھر سن 632ھ میں شیخ کو یہ خیال آیا کہ اس موسوعے کو اپنے ہاتھ سے دوبارہ لکھا جائے، اور پہلا نسخہ مسودے کی حیثیت اختیار کر جائے؛ چنانچہ آپ نے اس پہلے نسخے میں اضافہ بھی کیا اور کمی بھی۔ یہ عمل 4 سال کا عرصہ میں سن 636ھ میں مکمل ہوا۔
غور کرنے پر پتا چلتا ہے کہ شیخ اکبر نے صرف اسے دوبارہ لکھنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ہر جزو کے اختتام پر نسخہ اولی سے اِس کا موازنہ کیا اور اپنے متعدد ساتھیوں کے سامنے سماع کی مجالس میں اس کی مناسب درستگی بھی کی۔ اسی طرح ہر موازنے کے اختتام پر سماع ثبت کی اور حاضرین کے نام بمع تاریخ رقم کیے۔
فتوحات کا یہ دوسرا نسخہ شیخ اکبر کے ہاتھ سے لکھے 10544 صفحات پر مشتمل ہے، آپ نے انہیں 37 جلدوں میں تقسیم کیا ہے، یہ 560ابواب پر مشتمل ہیں۔ آخری جلد کے آخری صفحے پر آپ کے ہاتھ سے لکھی یہ عبارت درج ہے:
“الحمد للہ اس باب کے اختتام پر حتی الامکان اختصار اور اجمال سے مصنف کے ہاتھوں کتاب کا اختتام ہوا، یہ میرے ہاتھ سے لکھا اِس کتاب کا دوسرا نسخہ ہے۔ اس باب کا اختتام جو کہ اس کتاب کا اختتام ہے بروز منگل 24 ربیع الاول سن 636ھ کو ہوا، اِسے اِس کے مصنف محمد بن علی بن محمد بن العربی الطائی الحاتمی – اللہ اسے توفیق دے – نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا۔ یہ نسخہ 37 جلدوں پر مشتمل ہے، اور اس میں پہلے نسخے پر چند اضافات ہیں ، میں اِسے اپنے بیٹے محمد الکبیر کے نام منسوب کرتا ہوں، جس کی ماں فاطمہ بنت یونس بن یوسف امیر الحرمین ہیں، اللہ تعالی اُسے، اُس کی نسل کو اور اس کے بعد مشرق و مغرب بحر و بر کے تمام مسلمانوں کو اس کی توفیق دے۔”
Dilawar (verified owner) –
شکریہ۔ کتب بہت کمال ہیں۔ ترجمہ آسانی سے سمجھ آ رہا ہے۔ آپکی محنت کا اجر اللہ پاک بڑھائیں۔ فتوحات کی باقی جلدوں کا منتظر ہوں
دعا گو
دلاور گوپانگ
Muhammad Irfan Khalid (verified owner) –
Alhamdulillah! Finally for the very first time a great and quality urdu translation and i hope the rest of the volumes will also be completely translated in urdu and publish some day.
Danyal Amin (verified owner) –
شیخ الاکبر محی الدین ابن العربی (قدس سرہ) جن کا شمار چوٹی کے عرفاء میں ہوتا ہے کی تصنیف فتوحات مکیہ کا شمار (اپنی ضخامت کے باوجود) ہر دور میں اپل معرفت میں مقبول رہی ہے۔
ابرار احمد شاہی صاحب کے ترجمہ سے قبل اس کے کئی تراجم شائع ہو چکے ہیں۔ یہ تراجم یا تو اغلاط سے پر ہیں یا سلالت زبان سے محروم ہونے کے علاوہ بھاری بھرکم اور غیر ضروری توضیحات سے مملو ہیں۔ بر سبیل مثال فتوحات مکیہ کے پہلے جملہ “الحمد لله الذي أوجد الأشياء عن عدم وعدمه” کے ترجمہ کا تقابل ملاحظہ فرمائیں:
فضل خان چنگوی: ہر طرح کی کامل حمد خدا تعالیٰ کے لئے ہے جس نے تمام اشیاء کو محض نیست سے اور نیست کو نیست کرنے سے وجود بخشا۔
صائم چشتی: تمام تعریفیں اس اللہ تعالی کے لئے جو اشیا کو وجود میں لایا اور اسے معدوم کر دیا۔
فاروق القادری: ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے تمام اشیاء کو وجود سے پیدا فرمایا اور یوں عدم کو معدوم کر کے اُسے وجود کی صورت بخشی.
ابرار احمد شاہی: سب تعریف اللہ کی جس نے اشیا کو عدم، اور عدم العدم سے ایجاد کیا۔
متذکرہ بلا تراجم کے تقابل سے ابرار احمد شاہی صاحب کے ترجمہ کی اہمیت اور درستگی واضح جو کہ سلالت و متانت کے علاوہ شیخ الاکبر کے درست فہم کا عکاس بھی ہے۔
اس کے علاوہ اس ایڈیشن کی بنیاد فتوحات مکیہ کے مستند ترین نسخہ قونیہ کے متن پر ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ جلد، رسم الخط، کاغذ کا معیار وغیرہ سب عمدہ کوالٹی کا ہے۔ خدا تعالی شاہی صاحب کی مساعی قبول فرمائے اور ان کی توفیقات ارزاں فرمائے۔