یہ شیخ اکبر کی ان اولین کتب میں سے ایک ہے جو آپ نے اندلس اور مغرب کی سرزمین میں لکھیں۔ اپنے موضوعات کے حوالے سے یہ ایک متنوع کتاب ہے کہ ذات، صفات، افعال اور اسما سے لے کر حقیقت محمدیہ پر شیخ اکبر کے کلام کا نفیس ترین حصہ سامنے لاتی ہے۔ اسی کتاب میں “خاتم الاولیا” کی تحدید اور “شمسِ بیتی” کا تذکرہ ہے، اور یہی کتاب امامت کے اثبات اور استحقاق پر بھی بات کرتی ہے۔
“کتاب کی زبان اسرار و اشارات سے بھرپور ہے، مسجع و مقفع نص زبان کا حسن بڑھاتی ہے، لطیف اور کثیف معانی کو عیاں کرتی اور روحانی شعور کو جلا بخشتی ہے۔ شیخ فرماتے ہیں: “میرا ارادہ ہے کہ اِس (کتاب) میں وہ کچھ لکھوں، جو کبھی بتاؤں اور کبھی چھپاؤں” لہذا اندازِ تحریر میں شوخی اور بانک پن ہے۔ حقائق تک پہنچا کر بھی حجاب برقرار رکھا گیا ہے “اِس کتاب میں – ان شاء اللہ –میں تجھے “اَصداف کے دُرر” اور “برزخ کے معاملات” کے بارے میں بتاؤں گا ” یعنی حقائق اور معارف سے کماحقہ روشناس کرواؤں گا۔ “میں چاہتا ہوں کہ اس کتاب میں تجھ پر اسرار فاش کروں، بلکہ تجھ پر ان کی برسات کروں” یہ وہ اَن چھوئے اسرار ہیں جو اہل اللہ کو حق تعالی کے غیب کے خزانوں سے ملتے ہیں۔
انہی اسرار کے بارے میں شیخ کہتے ہیں: “جب دلوں نے دلوں کے بھید ٹٹولے، غیبی سورج اور اُن کے انوار ظاہر ہوئے، محفل جمی اور ابو العباس اور ان کے ساتھی آئے؛ تو میں اس معرفت کو متحقق کر کے چلا جو مجھے حاصل ہوئی، اب کوئی ایسا نادر نکتہ باقی نہ رہا جس کا گزر میری حاضرت کے دروازے سے نہ ہوا ہو، اگر عہدِ غیرت نہ لیا گیا ہوتا، اِفشا کی حرمت اور اِس پر سزا نہ ہوتی، تو ہم تیرے سامنے ان اسرار کو شان و شوکت سے ظاہر کرتے، لیکن میں انہیں ایک باریک پردے کے پیچھے سے تجھ تک لاؤں گا؛ کہ جو جرات کر کے یہ پردہ اٹھائے تو اِنہیں سامنے پائے۔ ”
فرماتے ہیں: “جب میں نے اُس کی بات سنی، اور اُس نے وہ کچھ میرے سامنے کیا جو اِس سے پہلے اوجھل تھا، تو مجھے اِس پاک مضمون کے لکھنے پر اکسایا گیا، اور مجھ سے یہ عہد لیا گیا کہ میں اِسے اِس کے سُندسی ملبوس سے نہیں نکالوں گا، تا کہ اس کے اسرار کسی نا اہل پر ظاہر نہ ہوں اور نہ اُس کے انوار کی چمک دکھائی دے، بولا: یہ (اسرار) تیرے ہاتھ بند امانت ہیں، لہذا پریشان مت ہو، اِنہیں تھام لے اور ظاہر مت کر، وگرنہ تو انہیں کھو بیٹھے گا۔”
یہ کتاب وہ معمی ہے جسے شیخ اکبر نے حکم الہی پر اُلجھایا، تاکہ نا اہل اِس سے دور رہے، فرماتے ہیں: “پس دانا اور سمجھ دار؛ جو شکم سیری کی بجائے حكمت کا طالب ہے، وہ ہماری رمز پر ٹھہرتا اور اُس معمے کو سلجھاتا ہے جسے ہم نے الجھایا۔ اگر حکم الہی نہ ہوتا تو ہم خود آنے جانے والے کو یہ سب کھول کر بتاتے، اسے مقیم کی غذا اور مسافر کا زاد بناتے۔ ”
انہی میں ختم ولایت والا مشاہدہ بھی ہے شیخ اکبر فرماتے ہیں:
“انہی اسرار و مشاہدات میں مشاہدہ ختم ولایت ہے جس کی ا بتدا سن پانچ سو پچانوے ہجری میں ہوئی۔ اور شیخ اکبر نے ایک روحانی مشاہدے میں ختم ولایت کو نشست امامت پر دیکھا۔ اس منظر میں نبی پاک ، صدیق اکبر، فاروق اعظم ، امام مہدی اور ختم ولایت سبھی موجود تھے۔ شیخ فرماتے ہیں : جب ہماری بات چیت چلی، اور ہم نے قدیم اور حدیث کے گن گائے۔ جب دلوں نے دلوں کے بھید ٹٹولے اور جب غیوب کے انوار آشکار ہوئے تو حضرت خضر اور حضرت الیاس بھی آن پہنچے۔اور وہاں وہ کچھ ہوا جسے میں نے بیان نہ کیا لہذا اچھے کا گمان کر اور یہ نہ پوچھ کہ کیا ہوا۔ فرماتے ہیں: اگر عہدِ غیرت نہ ہوتا، حُرمتِ افشا اور اس پر سزا نہ ہوتی، تو میں یہ سب کچھ بڑی شان و شوکت سے تیرے سامنے ظاہر کرتا۔ اب میں یہ اسرار تیرے قریب تو کروں گا لیکن انہیں چھپاؤں گا،تاکہ تُو جرأت کر کےیہ پردہ اٹھائے تو انہیں اپنے سامنے پائے۔
پھر حق کے پیامبر نے الہام کی صورت میں شیخ کو اس مخفی کتاب کے ظہور کا حکم دیا اور ابتداً اِس کا نام “کتابِ اظہار و اخفا در معرفتِ ختم و خلیفہ” رکھا۔ بعد میں ایک نفیس خطاب میں یہ نام تبدیل کر کے “عنقاء مغرب فی معرفہ ختم الاولیا و شمس المغرب” رکھ دیا گیا۔
عنقاء مغرب کے مخطوطات
عنقاء مغرب کتاب کے اِس جدید متن کی بنیاد دس سے زائد مخطوطات پر رکھی گئی ہے۔ ہم نے ان دس مخطوطات کو دو زمروں میں تقسیم کیا ہے: مخطوطات درجہ اول: پہلے درجے کے مخطوطات سے مراد وہ نسخے ہیں جو براہ ِراست نسخۂ اصلی سے نقل شدہ ہیں، یا جن کی کتابت شیخ کی حیات یا وفات کے ایک صدی کے اندر اندر ہوئی۔ یہ بہترین متن پیش کرتے اور زیادہ تر نسخہ اصلی سے نقل شدہ ہوتے ہیں۔ متن کی تیاری میں زیادہ بھروسا انہی مخطوطات پر ہوتا ہے۔ مخطوطات درجہ دوم:
دوسرے درجے کے مخطوطات سے مراد وہ نسخے ہیں جو براہ ِراست نسخہ اصلی سے نقل شدہ نہیں، یا جن کی کتابت شیخ کی وفات کے صدیوں بعد ہوئی۔ اگرچہ یہ بھی اچھا متن پیش کرتے ہیں لیکن ہم انہیں شواہد کے طور پر لاتے ہیں، بعض اوقات ان نسخوں میں اغلاط کی کثرت کے باعث تمام متغیرات حاشیے میں درج نہیں کیے جاتے۔
منہج اردو ترجمہ
ہم نے اپنے ترجمے میں شیخ اکبر کے منہج کو نقل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے؛ جہاں شیخ نے آسانی کی اور بات سلجھائی ہے تو ہم نے بھی قاری کو راہ دکھلائی ہے۔ لیکن جہاں شیخ نے ابہام رکھا اور بات الجھائی ہے، اُس جگہ ہم نے اردو ترجمے میں بھی وہی روش اپنائی ہے۔ جو مقامات اصل عربی میں ابہام کے متقاضی ہیں اردو میں ان کا ابہام قائم رکھا ہے، کسی شرح سے انہیں ایسے کھولنے کی کوشش نہیں کی کہ اشارات زائل اور اسرار واضح ہو جائیں۔ اردو ترجمے میں متن کو مسجع اور مقفع بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے تاکہ اصل عربی کی تھوڑی سی چاشنی اردو قارئین بھی محسوس کر سکیں۔
تحقیق عربی متن
عربی متن کی تحقیق میں اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ استاذ المنصوب نے جب اس کتاب کا ایک جدید ایڈیشن مرتب کیا تو ہمیں بھی اس کی ایک کاپی ارسال کی تاکہ ہم اسے ابن العربی فاونڈیشن سے بھی شائع کریں۔ پہلے ہمارا ارادہ اِسے مِن و عَن چھاپنے کا تھا لیکن جب ہمیں اپنے شیخ سے اِس اشاعت کی اجازت نہ ملی اور اِس میں اغلاط کی نشاندہی ہوئی تو ہم نے ایک جدید متن پر کام شروع کیا۔ ہم نے استاذ المنصوب کے ایڈیشن کا پانچ مزید مخطوطات سے موازنہ کیا۔ ان میں سے ایک نسخہ تو اس کتاب کے اولین نسخوں سے نقل شدہ تھا اور اکثر مقامات پر وہ ایک بہترین متن پیش کرتا دکھائی بھی دیتا ہے۔ لیکن باقی دو نسخے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ لہذا دوسرے مرحلے میں عربی متن کا دیگر تین نسخوں سے موازنہ کیا گیا۔ ایک ایک لفظ کو تمام نسخوں میں دوبارہ دیکھا گیا، کمی بیشی کو حاشیے میں لکھا گیا اور اشکالات اور ابہامات کا ازالہ کیا گیا۔ یہ سارا عمل نہایت ہی صبر آزما اور تکلیف دہ تھا۔ لیکن اُس پاک ذات کی توفیق اور غیبی امداد سے ہم یہ مرحلہ بھی احسن طریقے سے طے کرنے میں کامیاب ہوئے۔اپنی طرف سے تحقیق کر لینے کے بعد ہم نے اِس متن کی شیخ احمد محمد علی سے تصدیق کروائی، متغیر الفاظ کے بارے میں پوچھا اور آپ کے اِس بے مثال تعاون کے باعث ہی ہم اس کتاب کا بہترین متن تیار کر سکے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اس عمل کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشے، آمین
اردو ترجمہ
جس کلام میں بیان اشارے کنایے تک ہی محدود ہو اُس کا کما حقہ ترجمہ کرنا ممکن نہیں ہوتا، شیخ اکبر کا کلام تو الہیات کے بلند ترین مدارج میں سے ہے۔ ہم نے اللہ کا نام لے کر اِس عمل کی ابتداکی، ترجمہ کرنے میں ہمارا اسلوب یہ ہے کہ سب سے پہلے سلیس عبارات کا ترجمہ کرتے ہیں اور مشکل عبارات چھوڑتے جاتے ہیں، یوں دوسے تین ماہ کی محنت کے بعد ترجمے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوتا ہے۔ جس میں اس کتاب کا ایک ابتدائی مسودہ تیار ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد حسب عادت ایک بار پھر اصل عربی سے ملا کر مکمل ترجمہ چیک کیا جاتا ہے، اغلاط کو کم سے کم کیا جاتا ہے اور ترجمے میں مزید سلاست اور نفاست اپنائی جاتی ہے۔ دوسری مرتبہ اُن مقامات پر بھی غور کیا جاتا ہے جو پہلی بار ترجمہ ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ چونکہ ترجمے کا پہلا مسودہ پرانے متن سے کیا گیا تھا لہذا اِس کو نئے متن سے ہم آہنگ کیا گیا۔
حسب روایت اِس کتاب کے ترجمے میں بھی یہ خصوصیت ہے کہ شیخ اکبر کا اسلوبِ عبارت نقل کیا گیا، ترجمے میں بھی وہی طرز اپنانے کی کوشش کی گئی جو اصل متن میں ہے۔جہاں آپ حقائق کی بات کرتے ہوئے واضح کلام کرتے ہیں وہاں ترجمے میں بھی وضاحت کو اولین ترجیح دی گئی۔ واقعات میں جہاں آپ نے عربی روز مرہ اور محاورے کا استعمال کیا، ترجمے میں بھی اردو روز مرہ اور محاورے کا استعمال کیا گیا۔ غرض اپنی طرف سے پوری کوشش کی گئی ہے کہ ترجمہ بھی اسلوبِ شیخ سے ہٹنے نہ پائے۔
اشاعتی معیار
ہم نے اس عبارت کو اشاعت کے بنیادی اصولوں سے مزین کر کے شائع کیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں:
1. عربی متن میں موجود تمام قرآنی آیات کی تخریج کی گئی ہے۔
2. عربی متن میں مشکل مقامات پر حاشیے میں حسبِ استطاعت سلیس معانی درج کیے گئے ہیں اور یہی اسلوب اردو ترجمے میں بھی اپنایا گیا ہے۔
3. کتاب کا ترجمہ سلیس کیا گیا ہے اور ہر مشکل عربی لفظ کے مقابل اردو لفظ لانے کی کوشش کی گئی ہے الاّ یہ کہ وہ شیخ اکبر کی اصطلاح ہو۔ لفظ بلفظ ترجمے سے اجتناب کیا گیا ہے، لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر کماحقہ ترجمہ کرنا ممکن نہیں۔ عربی متن پیش کرنے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ کلام سے دلیل پکڑنے کی غرض سے اصل عربی سے رجوع کیا جائے اور ترجمے کو صرف فہم کا ایک ذریعہ سمجھا جائے، بلکہ جو حضرات عربی پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں انہیں عربی متن ہی پڑھنا چاہیے۔
4. علوم شیخ اکبر کی ترجمانی کسی کے بس کی بات نہیں۔ ہم نے اپنے شیخ کی برکت سے ایک کوشش کی ہے لیکن اگر کسی مقام پر ہم عربی متن اور ترجمے کو شیخ اکبر محی الدین ابن العربی کی مراد کے مطابق پیش نہیں کر سکے تو ہم ان سے معافی کے خواستگار ہیں۔
5. کتاب کو بڑے سائز پر بہترین صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔ اشاعت کے سلسلے میں بین الاقوامی معیار کو سامنے رکھا گیا ہے۔
Reviews
There are no reviews yet.