Urdu only | No Arabic | Book is coming publishing in the last week of May 2024
رسالہ روح القدس ایک تعارف
“روح القدس” شیخ اکبر کے درمیانی دور کی کتابوں میں امتیازی حیثیت رکھتی ہے؛ یہ اس دور میں لکھی گئی جب شیخ اپنی زندگی کے ان ایام سے گزر رہے تھے جہاں پر آپ نے اسلامی تصوف کو شریعت کے تابع ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس کتاب کا عمومی انداز ایسا رکھا گیا ہے کہ اس میں تصوف کے عملی پہلو یعنی راہ سلوک کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ شیخ کے نزدیک تصوف یا طریقت کی دو شاخیں ہیں: ایک سلوک اور دوسرا سفر۔ سلوک سے شیخ کی مراد اعمال کی تکرار اور ان کے نتائج سے حاصل احوال ہیں۔ جبکہ سفر سے مراد ان حقائق کی عقلی کشفی برہانی معرفت ہے۔
اس کتاب کا موضوع راہِ سلوک کی معرفت ہے جیسا کہ شیخ کی دیگر بہت سی کتب کا موضوع سفر طریقت کی معرفت ہے، مثلا “روحانی اسفار اور ان کے ثمرات” اور فصوص الحکم یا دیگر بہت سی کتب۔ پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہے کہ جن ایام میں شیخ نے یہ کتاب تالیف کی وہ آپ کی زندگی کے سخت ترین ایام تھے۔اندلس میں آپ نہایت آسودہ حال تھے، آپ کا تعلق رئیس خاندان سے تھا، بادشاہوں کی محفل میں آنا جانا عام بات تھی۔ وہاں آپ کو کبھی مال و زر کی کمی در پیش نہ آئی۔ پھر آپ کے والد کی وفات کے بعد اور اندلس کو مستقل طور پر خیر باد کہہ دینے پر آپ کے مالی حالات وہ نہ رہے جو اِس سے پہلے تھے۔ مکہ میں تو آپ بالکل ہی اجنبی تھے۔ لہذا مکہ کا ابتدائی دور آپ کے لیے کافی کٹھن تھا۔ اسی حوالے سے اسی کتاب میں اپنی غربت اور مفلسی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اے نفس! میں تجھے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں: کیا تو نے کبھی اِس سے بڑھ کر غربت دیکھی جو اب حرم اللہ میں تیری حالت ہے؟ وہ بولا: نہیں۔ میں نے اُس سے کہا: الحمدللہ! تجھے تو قمیص، شلوار، ازار، جبہ، عمامہ، جوتے اور چادر، گرم روٹیاں، تازہ گوشت اور میٹھا پیش کیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے امیر لوگ تیری خدمت کرتے ہیں، تیرا کہا مانا جاتا ہے، تو کہتا ہے: یہ کرو، تو وہ کیا جاتا ہے۔ تو کہتا ہے: یہ نہ کرو، تو وہ نہیں کیا جاتا۔ کہاں تو اور کہاں وہ؟”
کسی بھی مصنف کی کوئی بھی تصنیف جن ایام میں لکھی گئی ہوتی ہے وہ اس کے انہی ایام میں پیش آئے احوال کو اپنے اندر سموئے ہوتی ہے۔ اور یہی بات شیخ کی اس کتاب پر بھی صادق آتی ہے۔ سفر مکہ کے ابتدائی ایام شیخ کی زندگی کہ وہ ایام ہیں جب آپ کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہے۔ بس آپ اللہ کے حکم پر سفر میں ہی مصروف ہیں۔ کبھی مصر تو کبھی شام اور کبھی قونیہ وغیرہ۔ پھر آپ کے مالی حالات بھی ان ایام میں ویسے نہیں جیسے پہلے تھے، تو اس کا اثر بھی ہمیں اس کتاب میں دکھائی دیتا ہے، آپ نے اصحاب رسول کے ان احوال کا تذکرہ کیا ہے جو غربت اور مفلسی کی یاد دلاتے ہیں، آپ نے اویس قرنی اور اپنے شیوخ کے وہی احوال زیادہ تر رقم کیے ہیں جو تنگی کی یاد دلاتے ہیں۔ اور ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ شیخ اپنے نفس کو یہ نصیحت کر سکیں کہ اگر آج تیری یہ حالت ہے تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ اہل اللہ کو ہمیشہ سے ہی ان احوال کا سامنا رہا ہے۔ یہی اس کتاب کا اساسی موضوع ہے اور اس کتاب کو شیخ کے انہی احوال کے تناظر میں پڑھنا چاہیے۔ بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ ہر شخص کو یہ کتاب اپنی زندگی کے اُس دور میں پڑھنی چاہیے جس میں اسے بھی اسی قسم کے احوال کا سامنا ہو، تاکہ وہ اس کتاب سے اپنی زندگی کے اس کٹھن دور کو کاٹنے کی ہمت پاسکے۔ کیونکہ بالآخر وقت نے تو گزر ہی جانا ہے لیکن اس وقت میں پیدا شدہ جذبات اور احساسات نے ہمیشہ کے لیےرہ جانا ہوتا ہے۔ الحمد للہ جب سن 2016 سے ہم نے پہلے اِس کتاب کا ترجمہ کیا یا اسے شائع کیا تو ہمیں بھی اسی قسم کے احوال کا سامنا تھا۔ اور اس وقت اس کتاب نے ہمیں کافی تسلی اور تشفی بخشی۔
Reviews
There are no reviews yet.