آج ہم آپ احباب کے سامنے شیخ اکبر محی الدین محمد بن علی ابن العربی الطائی الحاتمی کے دو رسائل: إنشاء الدوائر والجداول، اور تاج التراجم في إشارات العلم ولطائف الفهم تحقیق شدہ عربی متن، سلیس اردو ترجمے اور منتخب مقامات کی شرح کے ساتھ شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ یہ دو رسائل ہمارے اُس مشن کا حصہ ہیں جس کا مقصد اِس ابدی اور لا فانی خدائی پیغام کو لوگوں کے سامنے اُن کی اپنی زبان، سلیس انداز اور تحقیق شدہ متون کے ساتھ پیش کرنا ہے۔
انشاء الدوائر
یہ رسالہ اپنے موضوع کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ اس کی ابتدا شیخ ان الفاظ سے کرتے ہیں: “اما بعد: جب اللہ سبحانہ وتعالی نے مجھے اشیا کے اُن حقائق سے روشناس کروایا جن پر یہ اپنی ذوات میں قائم ہیں، اور کشف سے اِن کی نسبتوں اور اضافتوں کے حقائق کا بتایا، تو میں نے یہ چاہا کہ انہیں حِسّی شکل کے قالب میں ڈھالوں، تاکہ میرے ساتھی اور دوست عبد اللہ بدر الحبشی پر اِن کا سمجھنا آسان ہو۔ اور یہ ہر اس (شخص) پر واضح ہو جائیں جس کی بصر اِن کے ادراک سے عاجز ہے یا جس کے افکار کے سیارے ان (حقائق) کے افلاک میں نہ تیرے، اور اُس پر یہ واضح ہو کہ وجود میں اُس کا مرتبہ کہاں ہے؟ اور اُسے یہ کیا شرف حاصل ہوا کہ فرشتے بھی اُس کے سامنے سجدہ ریز ہوئے ؟ اور جب مکرم برگزیدہ فرشتے نے اِسے سجدہ کیا تو پھر پست اور ادنی مخلوقات کے بارے میں تیرا کیا گمان؟”
اس کے بعد کتاب کی ابتدا وجود اور عدم کی معرفت سے ہوتی ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کتاب میں شیخ نے مرتبہ انسانی پر بات کرنی ہے لہذا یہ ضروری ہے کہ پہلے اس موضوع پر بات ہو جائے کہ انسان وجود اور عدم کے کِن مراتب میں ہے۔ اس بحث کے لیے ضروری ہے کہ پہلے وجود اور عدم کو تفصیلاً بیان کیا جائے تاکہ ہر کوئی اصطلاحاً ان مراتب کو جانے اور غلطی نہ کھائے۔ شیخ نے یہ سب عملی خاکوں اور اشکال سے واضح کیا ہے تاکہ طالب علم کے لیے اسے سمجھنے میں آسانی ہو۔
تاج التراجم تعارف
شیخ اکبر نے یہ رسالہ علم کے اشارات اور فہم کے لطائف میں لکھا ہے۔ کتاب کے مقدمے میں یہ بتایا ہے کہ اسمائے الہیہ کے حقائق اور انسان کامل کے حقائق کے درمیان لا تعداد مقامات ہیں۔ اور ان مقامات تک رسائی فکر سے پہلو تہی کرنے سے ہی نصیب ہوتی ہے۔ خود کو فکر سے عاری کرنا ایسی نایاب استعداد ہے کہ اکثر اہل عقل اس کا انکار کرتے ہیں کہ اس سے کوئی نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے۔ شیخ کے نزدیک یہ تمام مقامات عقل کے ادراک سے پرے ہیں، یہ وہ اسرار اور لطائف ہیں جو اللہ تعالی کی طرف سے بندے کو کشف اور مشاہدے میں عطا کیے جاتے ہیں جو خالص توحید کا نتیجہ ہیں۔
شیخ فرماتے ہیں کہ اس عالم میں فاعل حقیقی صرف اللہ تعالی ہی ہے جسے کامل اقتدار حاصل ہے، وہی اپنے بندوں سے خطاب کرتا ہے اور ان کی آپسی فضیلت ان بندوں کے مقامات کی وجہ سے ہے۔ اور ان ادراکات کا حصول شریعت کی پاسداری میں ہے لہذا بندے کو چاہیے کہ اچھے طریقے سے شریعت پر عمل کرے، توحید کو خالص کرے اور اُس کے اوصاف اپنائے اور اپنے اوصاف سے دامن چھڑائے، اور اس مناسبت سے اُستک جو آئے اسے قبول کرے۔
اسی طرح آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی صاحبِ کتاب اپنی کتاب کے مطابق عمل کرےاور اہل طریقت کی طرح ہر دنیاوی تعلق سے پہلو تہی کرے تو وہ بھی ان مقامات اور وارِدات کو پا سکتا ہے۔ لیکن جو اپنی عقل کو ہی سراہے اور اپنی رائے کا غلام بن جائے، چاہے وہ کتنی ہی مصیبتیں اٹھائے وہ ان تک نہیں پہنچ پاتا۔ ان لوگوں نے اس شے کو ذریعہ قربت سمجھا جسے رب نے ذریعہ قربت نہ بنایا۔ اپنی عقل سے کام لیا تو غلطی کھائی اور نقصان اٹھایا، پھر اللہ نے بھی ان کے ساتھ مکر اور استدراج کا معاملہ کیا تو اُن کے لیے انہی کے اعمال مزین کیے ﴿أَفَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا﴾[1] کیا جس کے لیے اس کے عمل کو مزین کر دیا گیا اور وہ جسے بہتر سمجھتا ہے کیا وہ ٹھیک ہے۔ ایسا بالکل نہیں۔
اس مقدمے کے بعد شیخ نے ان لطائف اور اشارت کو بیان کیا ہے جو آپ کو اللہ کی خصوصی عنایت سے حاصل ہوئے۔ یہ وہ راز ہیں جن تک رسائی ہر ایک کی بات نہیں۔ اس رسالے کا ہر جملہ ہی سننے اور سر دھننے کے قابل ہے۔
[1] (فاطر: 8).
Reviews
There are no reviews yet.